Bapchan Ki Mubhat




بچپن  کی  محبت

رات کی خاموشی میں جب چاند نے اپنی چاندنی بکھیری تو زینب کی چھت پر موجود کرسی پر بیٹھے بیٹھے ٹانگیں ہلانے لگی۔ ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے لپٹ رہے تھے، جیسے کوئی پیار سے اس کے گیسو سنوار رہا ہو۔ نیچے گلی میں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آ رہی تھیں، مگر اس کے کانوں میں تو بس کل کی شادی کی تیاریوں کی گھن گرج گونج رہی تھی۔ ماں نے کہا تھا، "بیٹا، یہ تمہاری خوشی کا دن ہے۔" مگر دل کے کسی کونے میں ایک چھوٹی سی آواز بار بار پوچھ رہی تھی، "کیا واقعی؟"

 

ایک تیز ہوا کے جھونکے نے اس کے دوپٹے کو اڑا دیا۔ زینب نے اسے پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کی نظر گلی کے اس کونے پر پڑی جہاں پرانی فیکٹری کا ویران حصہ تھا۔ اچانک اسے وہاں ایک حرکت نظر آئی۔ ایک لمحے کے لیے اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ کیا کوئی چور ہے؟ پھر اس نے دیکھا کہ وہاں سے ایک نوجوان باہر نکل رہا ہے۔ اس کی قمیض پر دھول جمی ہوئی تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے، مگر چاندنی میں اس کے چہرے کی واضح جھلک نے زینب کو ایک جھٹکے سے ہلا کر رکھ دیا۔ 



"یہ... یہ تو..." زینب کے ہونٹوں پر نام آ ہی رہا تھا کہ نوجوان نے سر اٹھا کر دیکھا۔ دس سال گزر گئے تھے، مگر وہ نظریں وہی تھیں جو اس نے بچپن میں دیکھی تھیں۔ احمد۔ وہی احمد جو اس کا ہم عمر تھا، جس کے ساتھ وہ اس ویران فیکٹری میں کھیلتی تھی، جس نے ایک بار اسے بچپن میں کہا تھا، "جب ہم بڑے ہو جائیں گے تو میں تم سے شادی کروں گا۔" پھر ایک دن احمد کا خاندان شہر چھوڑ کر چلا گیا، اور زندگی نے انہیں الگ کر دیا۔ 



زینب کی سانس تیز ہو گئی جب احمد نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی چمکتی ہوئی چیز تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ پرانی سی پیتل کی چابی ہے جو وہ بچپن میں فیکٹری کے ایک کمرے کی کہا کرتے تھے۔ ان کا "رازوں کا کمرہ"۔ زینب کے جسم میں ایک جھرجھری دوڑ گئی۔ کیا وہ اب بھی وہاں موجود تھا؟ کیا احمد نے اسے محفوظ رکھا تھا؟ 



نیچے سے اچانک ماں کی آواز آئی، "زینب! نیچے آؤ، تمہارے سسرال والے تمہارے لیے کچھ تحفے لائے ہیں۔" زینب نے جھٹ سے سر ہلا دیا، مگر جب اس نے دوبارہ نیچے دیکھا تو احمد غائب ہو چکا تھا۔ بس اس جگہ پر وہ چمکتی ہوئی چابی پڑی تھی۔ 



رات کے کھانے کے دوران زینب کا دماغ بالکل خالی تھا۔ اس کے ہونٹ مسکراہٹیں تو بانٹ رہے تھے، مگر اس کی آنکھیں کہیں اور تھیں۔ جب سب سو گئے تو وہ چپکے سے اٹھی اور اپنے کمرے میں موجود پرانے ڈبے سے ایک چھوٹی سی ڈائری نکالی۔ اس نے اسے کھولا تو اندر سے ایک خشک ہوا کا گلاب اور کچھ پرانی تصویریں گر پڑیں۔ ایک تصویر میں وہ اور احمد فیکٹری کے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ 



زینب نے گہری سانس لی۔ اس نے چابی اٹھائی اور خاموشی سے گھر سے نکل گئی۔ فیکٹری تک کا راستہ اسے یاد تھا، حالانکہ سالوں گزر گئے تھے۔ جب وہ وہاں پہنچی تو دیکھا کہ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا ہے۔ اندر سے مدھم سی روشنی آ رہی تھی۔ 

"میں جانتا تھا کہ تم آؤ گی۔" 



احمد کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ کمرے کے درمیان میں کھڑا تھا، اور حیرت کی بات یہ کہ وہ جگہ بالکل ویسی ہی تھی جیسے انہوں نے چھوڑی تھی۔ دیوار پر ان کے بنائے ہوئے خاکے، فرش پر بچھا ہوا وہی پرانا قالین، حتیٰ کہ وہ جار جس میں وہ اپنے "خزانے" رکھا کرتے تھے۔ 

"تم... تم نے یہ سب کیسے..." زینب کے الفاظ گلاٹے میں اٹک گئے۔ 



احمد نے مسکراتے ہوئے کہا، "ہر سال جب بھی میں شہر آتا، اس جگہ کو سنوار دیتا۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک دن تو تم ضرور آؤ گی۔" اس نے اپنی جیب سے ایک پرانی سی فلم نکالی۔ "تمہیں یاد ہے؟ ہم نے یہ فلم دیکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج ہم اسے دیکھیں گے۔" 



زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے دیکھا کہ کمرے کے کونے میں ایک پرانا پروجیکٹر لگا ہوا تھا۔ جب فلم چلنے لگی تو وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہو گئے، جیسے بچپن میں ہوا کرتے تھے۔ 

فلم ختم ہوئی تو احمد نے زینب کا ہاتھ تھام لیا۔ "زینب، کل صبح ہونے والی ہے۔ تمہیں فیصلہ کرنا ہے۔" اس نے اپنی جیب سے دو ٹرین کے ٹکٹ نکالے۔ "یہ رات کی آخری ٹرین ہے جو شہر سے باہر جائے گی۔ اگر تم چاہو تو..." 



زینب نے ٹکٹوں کو دیکھا، پھر اپنے گھر کی طرف دیکھا جہاں اس کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اس کے دل میں ایک جنگ چل رہی تھی۔ ماں باپ کی خواہشات... یا اپنے دل کی آواز؟ 

اچانک دور سے اذان کی آواز آئی۔ فجر ہونے والی تھی۔ زینب نے ایک گہری سانس لی اور احمد کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ 

"چلو،" اس نے کہا۔ 


اور پھر وہ دونوں ٹرین اسٹیشن کی طرف بھاگے، جہاں ان کی نئی زندگی کا انتظار کر رہی تھی۔ جب ٹرین چلی تو زینب نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ چاند ڈھل رہا تھا، اور نئی صبح کی پہلی کرن نمودار ہو رہی تھی۔ 


Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post