محبت اور خواہش
ماسکو کی سرد ہوائیں شہر کے ہر کونے کو چھو رہی تھیں، جیسے وقت کے ساتھ سفر کرتی ہوئی کوئی داستان۔ نیلیہ، ایک پاکستانی لڑکی جو یونیورسٹی کی تعلیم کے لیے ماسکو آئی تھی، اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ برف کے ذرات ہوا میں تیر رہے تھے، اور اس کے دل میں بھی کچھ احساسات تیر رہے تھے۔ وہ یہاں آنے کے بعد سے خود کو اکیلے پانے لگی تھی۔ ایک اجنبی ملک، اجنبی زبانیں، اور اجنبی چہرے۔ لیکن اس کی زندگی میں ایک دن سب بدلنے والا تھا۔
وہ ایک کافی شاپ میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب اس کی نظر ایک لمبے قد، نیلی آنکھوں والے روسی لڑکے پر پڑی۔ الیکس۔ اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ تھی، جیسے وہ کسی راز کو چھپائے ہوئے ہو۔ ان کی نظریں ملیں، اور نیلیہ نے فوراً اپنی نگاہیں جھکا لیں۔ لیکن الیکس نے ہمت کر کے اس کے پاس آ کر پوچھا، "کیا میں تمھارے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟" اس کی آواز میں نرمی تھی، اور نیلیہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
دن گزرتے گئے، اور ان کی ملاقاتیں بڑھتی گئیں۔ الیکس نیلیہ کو ماسکو کی سیر کرواتا، اسے روسی ثقافت سے روشناس کراتا، اور وہ اسے اردو کے شعر سناتی۔ ان کے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ بن رہا تھا، جو دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ ایک رات، جب ماسکو کے آسمان پر ستارے جگمگا رہے تھے، الیکس نے نیلیہ کا ہاتھ تھام لیا۔ اس کی انگلیاں اس کی انگلیوں میں گھس گئیں، اور نیلیہ نے محسوس کیا جیسے اس کا دل دھڑکنے لگا۔ الیکس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، "میں تم سے محبت کرتا ہوں۔"
لیکن محبت کے ساتھ ہی خواہشات کے بادل بھی چھا گئے۔ الیکس کا پیار جلد ہی شوق میں بدلنے لگا۔ وہ نیلیہ کو اپنی طرف کھینچتا، اس کے قریب ہوتا، اور ہر بار اس کی حدوں کو آزماتا۔ نیلیہ ایک کشمکش میں تھی۔ وہ الیکس سے محبت کرتی تھی، لیکن اس کے اندر کی پاکستانی لڑکی اسے روکتی تھی۔ ایک رات، جب وہ الیکس کے گھر پر تھی، اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنے آپ کو کھو رہی ہے۔ الیکس کا پیار اب زبردستی کی شکل اختیار کر رہا تھا۔
نیلیہ نے اپنے آپ کو الیکس کے قریب سے دور کھینچ لیا۔ اس کے آنسو اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ "نہیں، میں یہ نہیں چاہتی،" اس نے کہا۔ الیکس کی آنکھوں میں غصہ تھا، لیکن پھر اس نے خود کو سنبھالا۔ "معاف کرنا،" اس نے کہا،
**لیکن نیلیہ جانتی تھی کہ اب سب کچھ بدل چکا ہے۔**
الیکس کے لفظ "معاف کرنا" میں وہ خلوص نہیں تھا جو کبھی اس کی آنکھوں میں جلتا نظر آتا تھا۔ اس رات کے بعد نیلیہ کے دل میں ایک عجیب بے چینی سی پیدا ہو گئی۔ وہ الیکس سے ملنے سے گھبرانے لگی، اس کے پیغامات کو نظرانداز کرنے لگی۔ لیکن الیکس کا اصرار بڑھتا گیا۔ وہ یونیورسٹی کے باہر اس کا انتظار کرتا، اس کے دوستوں سے اس کے بارے میں پوچھتا۔ نیلیہ نے محسوس کیا جیسے وہ ایک زنجیر میں جکڑی جا رہی ہے۔
پھر ایک دن وہ واقعہ پیش آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ نیلیہ لائبریری سے واپس اپنے ہاسٹل کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک الیکس سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھوں میں وہ جنون تھا جو نیلیہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ "تم میریوں سے کیوں بھاگ رہی ہو؟" الیکس نے غصے سے پوچھا۔ نیلیہ نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا، "مجھے تنہا چھوڑ دو۔" لیکن الیکس نے اس کی کلائی پکڑ لی۔
**اس لمحے نیلیہ کو اپنی ماں کی آواز یاد آئی،** جو اسے ماسکو جانے سے پہلے کہہ رہی تھیں، "بیٹا، پردیس میں اپنی عزت اور وقار کو خود سنبھالنا۔" یہ الفاظ اس کے دل میں گونج اٹھے۔ اچانک نیلیہ کے اندر سے ایک طاقت پھوٹی۔ اس نے زور سے الیکس کو دھکا دیا اور چیخ کر کہا، "دور ہو جا مجھ سے!"
اس کی چیخ سن کر قریب سے گزرتے ہوئے کچھ طلباء دوڑے آئے۔ الیکس نے موقع دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلا۔ نیلیہ کانپ رہی تھی، لیکن اسے محسوس ہوا جیسے اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی جنگ جیت لی ہے۔
**کچھ دنوں بعد،** نیلیہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کو پورا واقعہ بتا دیا۔ الیکس کے خلاف کارروائی ہوئی۔ اب نیلیہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے آپ کو تعلیم اور اپنے خوابوں کے لیے وقف کر دیا۔
**کہانی کا اختتام**
ماسکو کی سرد راتوں میں اب بھی کہانیاں گم ہوتی ہیں، لیکن نیلیہ کی کہانی ایک سبق بن گئی۔ محبت اور خواہش کے درمیان فرق کرنا ہر عورت کے لیے ضروری ہے۔ نیلیہ نے اپنی عزت کو اپنی محبت پر ترجیح دی، اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
Post a Comment