تین سال سے میں اس سکول میں پڑھا رہی تھی۔ یہاں ہر سال ایک لڑکی اسکول سے غائب ہو جاتی اور خبر ملتی کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ مگر میرا دل مانتا ہی نہ تھا کہ یہ سب واقعات محض اتفاق ہیں۔ اِس بار میری ہی چھوٹی بہن سونیا اسکول سے غائب ہو گئی۔ گھر میں ماتم کا سماں تھا۔ ماں باپ ٹوٹ چکے تھے، مگر اسکول والوں نے بدنامی کے ڈر سے میری شکایت تک سننے سے انکار کر دیا۔ بلکہ مجھے ہی بے عزتی کے ساتھ نوکری سے نکال باہر کیا۔ میں جانتی تھی دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ سونیا کبھی کسی کے ساتھ بھاگتی نہیں، وہ تو صرف کتابوں میں گم رہنے والی معصوم بچی تھی۔
میں نے فیصلہ کیا کہ خاموشی سے اس راز تک پہنچنا ہوگا۔ اپنے بال سفید کر کے، کپڑے گندے کر کے، اور چہرے پر جھریاں بنائیں... میں ماسی بن کر اسکول میں داخل ہو گئی۔ کچھ دن تو صرف فرش صاف کرتے اور کچرا اٹھاتے گزرے۔ مگر ایک بات نے مجھے حیران کیا کہ ہر شام جب اسکول بند ہوتا، مالک مسٹر جاوید سائنس لیب کی طرف چلا جاتا اور گھنٹوں بعد باہر نکلتا۔ لیب کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا، اور چابی صرف اُن کے پاس تھی۔ ایک دن جب مسٹر جاوید کا فون لیب میں ہی رہ گیا، تو میں نے موقع پا
کر چوری سے چابی بنوا لی۔
اگلے دن جب سب چلے گئے، میں نے دھیمے قدموں سے لیب کا دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہوتے ہی میری سانسیں رک گئیں۔ لیب
کے بیچوں بیچ ایک بڑا سا شیشے کا کیبن تھا جس میں پندرہ لڑکیاں بے حس و حرکت پڑی تھیں۔ ان کی رگیں کچھ عجیب سی مشینوں سے جڑی تھیں، اور ہر ایک کے چہرے پر ایک فوسفورسینٹ ماسک لگا ہوا تھا۔ میری چھوٹی بہن سونیا بھی اُن میں سے ایک تھی۔ میں نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں سے ایک نیلا مائع ٹپک رہا تھا جو نلکیوں کے ذریعے ایک بڑے ٹینک میں جمع ہو رہا تھا۔ میرا دل دہل گیا۔ یہ تو کوئی شیطانی تجربہ تھا !
تب اچانک دروازے کی طرف سے آواز آئی، "تمہیں یہاں کس نے آنے دیا؟" میں نے مڑ کر دیکھا تو مسٹر جاوید ہاتھ میں پستول لیے کھڑے تھے۔ اُن کی آنکھیں خونخوار درندے کی طرح چمک رہی تھیں۔ میں نے گھبرا کر اپنا ماسک اتارا تو وہ چونک پڑے، "تم؟ تمہیں تو میں نے نکال دیا تھا!" میں نے غصے سے کہا، "میری بہن کو کیا کیا ہے؟" وہ قہقہہ مار کر بولے، "تمہاری بہن؟ وہ تو اب میری ملکیت ہے۔ یہ سب لڑکیاں میری ایجاد کا حصہ ہیں۔ ان کے جسم سے نکلنے والا یہ نیلا مائع دراصل ان کی جوانی کا عرق ہے، جو مجھے ہمیشہ جوان رکھے گا !"
میں نے دیکھا کہ اُن کا چہرہ واقعی کسی پچاس سالہ شخص جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ شاید اپنے ہی تجربے کا شکار ہو چکے تھے۔ اتنے میں اُنہوں نے پستول کا رخ میری طرف کر لیا۔ مگر تب تک میں نے لیب کی میز پر پڑا ایک کیمیکلز کا بوتل اُٹھا کر اُن کے چہرے پر دے مارا۔ وہ چلائے، اور اُن کی آنکھیں جلنے لگیں۔ میں نے فوراً مشینوں کے بٹن دبانے شروع کیے۔ کچھ ہی دیر میں تمام لڑکیوں کے ماسک کھل گئے، اور وہ ایک ایک کر کے ہوش میں آنے لگیں۔ سونیا نے مجھے دیکھتے ہی رو پڑنا شروع کر دیا۔
لیب کا الارم بجنے لگا۔ میں نے جلدی سے لڑکیوں کو باہر نکالنا شروع کیا۔ مگر مسٹر جاوید نے میرا پاؤں پکڑ لیا۔ "تم کہیں نہیں جا سکتیں!" وہ دھاڑے۔ میں نے اپنی ساری طاقت جمع کر کے اُن کے ہاتھ میں پستول چھین لی اور گولی چلا دی۔ وہ خاموش ہو گئے۔
پولیس آئی تو تمام لڑکیاں اپنی کہانی سنا رہی تھیں۔ پتا چلا کہ مسٹر جاوید ایک نامور سائنسدان تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے بعد جوانی کا جنون پال بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے لڑکیوں کے جسم سے "جوانی کا عرق" نکال کر اپنے لیے ایک سیرم تیار کیا تھا، جو اُنہیں عارضی طور پر جوان دکھاتا تھا۔ مگر اس سیرم کا اثر ہمیشہ نہیں رہتا تھا، اِس لیے ہر سال ایک نئی لڑکی کی ضرورت پڑتی تھی۔
سونیا اور باقی لڑکیوں کو ہسپتال لے جایا گیا۔ میرا نام اخباروں میں ہیرو کی طرح چھپا۔ اسکول بند ہو گیا، اور مسٹر جاوید کی لاش کو عدالت کے احکامات پر جلا دیا گیا۔ مگر ایک رات جب میں سونیا کے بستر کے پاس بیٹھی تھی، اُس نے اچانک آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کہا، "بہن... تم نے تو اُسے مار دیا، مابچھو کون؟ "
میں نے حیران ہو کر پوچھا، "کس کی بات کر رہی ہے تو؟" سونیا نے اپنی آستین اوپر چڑھائی تو اُس کی کلائی پر ایک نیلا نشان تھا... بالکل ویسا ہی جیسا مسٹر جاوید کے گلے پر تھا۔ وہ مسکرائی، "وہ صرف ایک کٹھ پتلی تھا۔ اصلی مالک تو ابھی زندہ ہے۔ "
تب تک دیر ہو چکی تھی۔ کمرے کی دیوار پھٹی، اور ایک پراسرار روشنی میں سے ایک لمبا سا شخص نمودار ہوا۔ اُس کے ہاتھ میں وہی نیلے مائع کا ٹینک تھا۔ سونیا اُٹھ کر اُس کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ "اب تمہاری باری ہے، بہن۔" اُس نے کہا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میری پرچھائیں... غائب تھی۔
(مکمل)
Post a Comment