بارش کی بوندیں کھڑکی کے شیشے پر تھپ تھپ کی آواز پیدا کر رہی تھیں، جیسے کوئی پریشان روح بار بار دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو۔ اندر کا کمرہ، جہاں صرف ایک مدھم بیڈ سائیڈ لیمپ روشنی کی لکیر بکھیر رہا تھا، اس آواز سے بھیگا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ زارا اپنے بستر پر ایک طرف کو سمیٹی ہوئی تھی، آنکھیں کھڑکی کے پار اندھیرے میں گڑی ہوئیں۔ اس کی سانسیں، ہوا میں معلق دھوئیں کی طرح بے وزن اور بے مقصد تھیں۔ ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ ایک ہفتہ جب سے وہ غائب ہوئی تھیں۔ اس کی بہن، سارہ۔
سارہ۔۔۔ نام ہی ذہن میں آتے ہی زارا کے حلق میں ایک گانٹھ سی اٹک جاتی تھی۔ صرف اٹھارہ سال کی، اس کی چمکتی آنکھیں جن میں مستقبل کے خواب جھلملاتے تھے، اس کا مسکراتا چہرہ جو گھر کی ہر دیوار کو روشن کر دیتا تھا، اور وہ آواز۔۔۔ وہ آواز جو گیت گاتی، جھگڑتی، ہنستی، زندگی سے بھرپور۔۔۔ سب خاموشی کے ایک گہرے، سیاہ سوراخ میں غائب ہو چکے تھے۔ پولیس کی بے حسی سے بھرپور رپورٹس ("نوجوان لڑکیاں اکثر خود ہی چلی جاتی ہیں، شاید کسی دوست کے پاس")، رشتہ داروں کے خالی تسلی کے بول ("اللہ بہتر کرے گا بیٹا، گھبراؤ مت")، اور ماں کا خاموش رونا جو رات بھر گھر میں گونجتا رہتا تھا۔۔۔ یہ سب زارا کے اندر ایک ایسا درد جمع کر رہے تھا جو بولنے سے بھی بڑھ کر تھا۔ یہ خاموش لمحے تھے جو چیخ رہے تھے، ایک ایسی چیخ جو صرف اس کے اندرونی کانوں میں ہولناک گونج پیدا کرتی تھی۔
اس رات، جب سارہ گھر نہیں لوٹی، پہلے تو معمول کی ہلکی سی پریشانی تھی۔ فون بند۔ پھر گھنٹے گزرتے گئے۔ پریشانی گھبراہٹ میں بدلی۔ پھر خوف نے اپنی برفانی انگلیاں پھیلانا شروع کر دیں۔ باہر نکل کر تلاش شروع کی۔ دوستوں کے گھر، کالج لائبریری، اس کی پسندیدہ کافی شاپ۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ ایسا لگا جیسے سارہ زمین نگل گئی ہو۔ پولیس اسٹیشن میں درخواست دائر کرنے کا منظر زارا کے ذہن پر نقش تھا۔ سرخ آنکھوں والے انسپکٹر نے بے دلی سے کاغذات بھرے، بار بار یہی سوال دہرایا: "کیا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟ کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا؟" جیسے وہ خود ہی کسی غلط کام کا ارتکاب کرنے پر تیار ہو۔
اور اب، یہ انتظار۔۔۔ ایک ایسی اذیت جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی تھی۔ زارا کی ماں، جو پہلے ہی بیمار رہتی تھیں، اب تو بالکل ہی ٹوٹ چکی تھیں۔ ان کی آنکھیں ہمیشہ نم، ہونٹوں پر دعائیں اور سوالات کا ایک خاموش ہلکورا۔ والد۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں بند رہتے، کم ہی بولتے، لیکن ان کی چپ کی موٹی دیوار کے پیچھے ایک تباہی کا منظر دکھائی دیتا تھا۔ گھر کی ہوا میں سسکیوں اور ناامیدی کا ایک گاڑھا دھواں تھا جو سانس لینے کو بھی دشوار کر دیتا تھا۔
بارش کی آواز تیز ہو گئی۔ زارا نے آنکھیں موند لیں۔ اس کے ذہن میں سارہ کی آخری تصویر تیرنے لگی۔ صبح ناشتے پر وہ کچھ خاصی خوش تھی، اپنے فائنل آرٹ پراجیکٹ کے بارے میں پرجوش گفتگو کر رہی تھی – ایک سیریز جس کا عنوان تھا "شہر کی دھڑکنیں"۔ اس نے اپنے اسکیچ بک کا ذکر کیا تھا جو وہ ہمیشہ اپنے بستے میں رکھتی تھی۔ "یہ میری ڈائری ہے، زارا، تصویروں والی!" وہ ہنستی ہوئی بولی تھی۔
اچانک، زارا کی آنکھیں کھل گئیں۔ اسکیچ بک! کیا وہ اس کے ساتھ تھی جب وہ غائب ہوئی؟ پولیس نے اس کا بستہ نہیں ملا تھا۔۔۔ زارا کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ایک سوئی سی چبھی۔ شاید۔۔۔ صرف شاید۔۔۔ اس بک میں کچھ ہو؟ کوئی اشارہ؟ کوئی نام؟ کوئی جگہ؟
اس نے اٹھنے کا فیصلہ کیا۔ خاموشی سے، جیسے کوئی چور، وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ ماں باپ کا کمرہ بند تھا، اندر سے ہلکی سی سسکیوں کی آواز آرہی تھی۔ زارا نے دل ہی دل میں ایک دعا پڑھی اور سیڑھیاں اتر کر سارہ کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ یہ کمرہ اب ایک میوزیم کی مانند لگتا تھا – ہر چیز ویسی ہی تھی جیسے سارہ نے چھوڑی تھی، مگر زندگی کی روح غائب تھی۔ ہوا میں اس کے پسندیدہ پرفیوم کی ہلکی سی خوشبو ابھی بھی پھنسی ہوئی تھی۔
زارا نے سارہ کی میز کی طرف دیکھا۔ کچھ کتابیں، کچھ پین، ایک کافی کپ۔۔۔ مگر کوئی اسکیچ بک نہیں۔ اس نے دراز کھولی۔ کپڑے، کچھ پرانے خط، فوتو البم۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ الماری چیک کی۔ وہاں بھی نہیں۔ پریشانی بڑھنے لگی۔ کیا اسے پولیس نے لے لیا ہوگا؟ مگر انہوں نے تو کبھی اس کا ذکر تک نہیں کیا۔
پھر اس کی نظر پلنگ کے نیچے پڑے ایک پرانے کارٹن پر پڑی۔ سارہ کبھی کبھار اپنی پینٹنگز کے سامان وہاں رکھتی تھی۔ زارا گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور کارٹن کو باہر کھینچا۔ اندر کچھ خالی کینوس، رنگوں کے ٹیوب، برش۔۔۔ اور ایک بند، بھوری رنگ کی فائل۔ زارا نے اسے کھولا۔ اندر کوئی کاغذات نہیں تھیں، بلکہ وہی اسکیچ بک تھی! سارہ نے اسے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔
زارا کا ہاتھ کانپنے لگا۔ اس نے کتاب کھولی۔ پہلے صفحے پر سارہ کا دستخط تھا اور تاریخ – غائب ہونے سے صرف ایک دن پہلے کی۔ اس نے صفحہ الٹا۔ سادہ پنسل اسکیچز تھے – کالج کی عمارت، ایک پرانا درخت، چند دوستوں کے چہرے۔ زارا آہستہ آہستہ صفحے پلٹنے لگی۔ ہر تصویر اس کی بہن کی موجودگی کا شدید احساس دلا رہی تھی۔
پھر وہ ایک خاص صفحے پر پہنچی۔ یہ کوئی جگہ نہیں تھی، بلکہ ایک چہرے کا اسکیچ تھا۔ لیکن یہ کوئی عام چہرہ نہیں تھا۔ سارہ نے اسے بہت تفصیل سے بنایا تھا – گہری، کھدی ہوئی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی تھکاوٹ اور کچھ اور۔۔۔ کیا غصہ تھا؟ یا پھر دکھ؟ گال کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، ہونٹ پتلی لکیر کی طرح سخت۔ بال بے ترتیب۔ اس چہرے پر ایک گہرا زخم کا نشان تھا، داہنے گال پر، جو ٹوٹے ہوئے دل کی شکل جیسا لگتا تھا۔
زارا کا دل ایک زوردار دھڑکے کے ساتھ رک گیا۔ یہ چہرہ۔۔۔ یہ تو وہی آدمی تھا! ایک مہینے پہلے کی بات تھی۔ زارا اور سارہ شاپنگ کر کے گھر لوٹ رہی تھیں۔ ایک تاریک گلی کے موڑ پر انہوں نے دیکھا کہ دو آدمی کسی تیسرے شخص کو دھکے دے رہے ہیں، گالیاں دے رہے تھے۔ متاثرہ آدمی بوڑھا لگ رہا تھا، خوفزدہ۔ سارہ، اپنی جذباتی فطرت کے مطابق، فوراً آگے بڑھی اور چیخ کر کہا: "چھوڑ دو اسے! کیا کر رہے ہو؟"
ایک لمحے کے لیے سب رک گئے۔ پھر ان دو میں سے ایک، جس کے چہرے پر زخم کا نشان تھا، سارہ کی طرف مڑا۔ اس کی آنکھوں میں جو نظر آیا وہ زارا کو آج بھی یاد تھا – ایک وحشیانہ، بے رحم غصہ۔ اس نے کوئی لفظ نہیں کہا، صرف ایک گہری، خطرناک نگاہ سارہ پر جمائی اور پھر اپنے ساتھی کو اشارہ کیا۔ وہ بوڑھے کو گھسیٹتے ہوئے گلی کے دوسرے سرے پر غائب ہو گئے۔ سارہ غصے اور بے بسی سے کانپ رہی تھی۔ زارا نے اسے سمجھایا کہ ایسے لوگوں سے الجھنا ٹھیک نہیں۔ مگر سارہ نے کہا تھا: "زارا، اس کی آنکھیں۔۔۔ میں نے کبھی ایسی نفرت نہیں دیکھی۔ وہ آدمی۔۔۔ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔"
اور اب، یہی چہرہ سارہ کی اسکیچ بک میں تھا۔ زارا کے ہاتھوں سے پسینہ بہنے لگا۔ کیا اس واقعے کا سارہ کی گمشدگی سے کوئی تعلق تھا؟ کیا وہ آدمی۔۔۔؟ اس کے ذہن میں خوفناک امکان نے جنم لیا۔
اس نے جلدی سے مزید صفحات پلٹائے۔ کچھ اور اسکیچز کے بعد وہ ایک اور صفحے پر پہنچی جو دوسروں سے مختلف تھا۔ یہ کوئی تصویر نہیں تھی، بلکہ ایک نقشہ تھا۔ پنسل سے بنایا ہوا، کچھ دھندلا سا۔ لیکن زارا نے پہچان لیا۔ یہ شہر کے پرانے حصے کا ایک علاقہ تھا، خاص کر ایک متروک فیکٹری کے آس پاس جسے مقامی لوگ "شیطان کا گھر" کہتے تھے۔ سارہ نے نقشے پر ایک جگہ گول دائرہ لگایا ہوا تھا، اور اس کے پاس لکھا تھا: "وہ جگہ؟ دیکھنا ہے۔۔۔"
دل زارا کا سینے سے نکلنے کو ہوا۔ یہ کیا مطلب تھا؟ کیا سارہ نے اس جگہ کا پتہ لگانے کی کوشش کی تھی؟ وہ آدمی وہاں رہتا تھا؟ اس نے پولیس کو بتانے کا سوچا، مگر پھر ان کے بے رخی بھرے رویے یاد آئے۔ وہ اسے پاگل سمجھیں گے، ایک پریشان بہن کا وہم۔ نہیں، اسے خود ہی جانا ہوگا۔ اسے معلوم کرنا ہوگا۔
اگلی صبح، زارا نے ماں سے جھوٹ بولا کہ اسے کالج جانا ہے۔ اس نے سارہ کی اسکیچ بک اپنے بستے میں چھپا لی۔ باہر نکلتے ہی اسے ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی۔ جیسے کوئی نادیدہ آنکھیں اس پر ٹکی ہوئی ہوں۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ مصروف سڑک، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مگن۔۔۔ پھر بھی وہ احساس دور نہ ہوا۔
وہ پرانے شہر کی گندی، تنگ گلیوں میں داخل ہوئی۔ ہوا میں گندگی اور پائپوں سے رسنے والے پانی کی بو تھی۔ دیواروں پر پھٹے ہوئے پوسٹر، کتے کچرے میں منہ مار رہے تھے۔ لوگوں کی نظریں اس پر اٹکتی تھیں، ایک صاف ستھرے کپڑوں میں مڈل کلاس لڑکی کا وہاں ہونا عجیب تھا۔ زارا نے سارہ کے بنائے ہوئے نقشے کو دیکھتے ہوئے راستہ تلاش کیا۔ دل دھڑک رہا تھا، کانوں میں خون کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں۔
آخرکار وہ اس متروک فیکٹری کے سامنے پہنچی۔ وسیع، ویران عمارت کھنڈر میں بدل چکی تھی۔ کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی، دیواریں سیاہی سے داغدار۔ دروازے پر زنگ آلود تالا لٹک رہا تھا۔ نقشے کے مطابق، نشان لگائی گئی جگہ فیکٹری کے پیچھے تھی۔ زارا نے گہری سانس لی اور عمارت کے گرد گھومنے لگی۔ پیچھے ایک تنگ گلی تھی، جس کے آخر میں ایک چھوٹا سا، تقریباً گرتا ہوا کمرہ نظر آیا۔ شاید پہلے کسی چوکیدار کا کمرہ رہا ہو۔ اس کا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا، جھول رہا تھا۔
زارا نے قدم بڑھایا۔ اندر کی ہوا سڑی ہوئی لکڑی اور مٹی کی بو سے بھری ہوئی تھی۔ روشنی کم تھی۔ فرش پر کوڑا کرکٹ بکھرا ہوا تھا۔ کچھ خالی شراب کی بوتلیں، پڑی ہوئی اخباریں۔۔۔ پھر اس کی نظر ایک کونے میں پڑی۔ وہاں، دھول میں لت پت، کچھ چمکدار چیز پڑی تھی۔ زارا قریب گئی۔ یہ ایک چھوٹا سا سلور کا پِیرس تھا، ستارے کی شکل کا۔ سارہ کا پسندیدہ پِیرس جو وہ ہمیشہ اپنے بائیں کان میں پہنتی تھی!
زارا نے اسے اٹھا لیا۔ اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ یہاں۔۔۔ سارہ یہاں آئی تھی! لیکن کیوں؟ اور کیا ہوا تھا؟ اس نے کمرے میں نظر دوڑائی۔ کوئی خون کے دھبے نہیں، کوئی جدوجہد کے نشانات نہیں۔۔۔ پھر اس کی نظر دیوار پر پڑی۔ کچھ نشانات تھے۔۔۔ پنسل سے بنے ہوئے؟ وہ قریب گئی۔ یہ سارہ کے ہاتھ سے بنے ہوئے تھے! چند لکیریں، ایک ادھورا سا چہرہ۔۔۔ اور نیچے لکھا ہوا تھا: "وہ۔۔۔ وہ جانتا ہے۔۔۔"
"کون جانتا ہے؟" زارا نے آواز نکالی، اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
اچانک، دروازے پر پاؤں کی آواز سنائی دی۔ زارا کا خون خشک ہو گیا۔ وہ فوراً دیوار کے پیچھے چھپ گئی، دل اس طرح دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر نکل آئے۔ ایک آدمی اندر آیا۔ اس نے کمرے میں نظر دوڑائی۔ زارا نے صرف اس کے جوتے دیکھے – گندے، پھٹے ہوئے بوٹ۔ وہ چند قدم چلا، رکا۔ پھر اس نے کچھ کھڑکھڑانے کی آواز نکالی، جیسے کوئی چیز اٹھائی ہو، اور پھر وہیں رک گیا۔ خاموشی چھا گئی۔ زارا نے سانس روک رکھا تھا۔ لمحے لمحے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ پھر اس نے آہستہ سے جھانکا۔
وہ آدمی دروازے کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔۔۔ اور اس کے ہاتھ میں ایک چاقو تھا! چمکدار، تیز دھار۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی خیال میں گم ہو۔ زارا نے اس کا پروفائل دیکھا۔ گہری آنکھیں، ابھری ہوئی گال کی ہڈیاں۔۔۔ اور داہنے گال پر ٹوٹے ہوئے دل کی شکل کا زخم کا نشان۔ وہی آدمی! وہی جس کا اسکیچ سارہ نے بنایا تھا۔ وہی جسے انہوں نے اس بوڑھے کو تنگ کرتے دیکھا تھا۔
خوف نے زارا کو جکڑ لیا۔ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی۔ کیا وہ اسے دیکھ چکا ہے؟ اس نے دوبارہ جھانکا۔ آدمی اب بھی وہیں کھڑا تھا، چاقو کو ہاتھ میں گھما رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی پرانی نفرت تھی، مگر اس کے ساتھ کچھ اور بھی۔۔۔ ایک عجیب سی پریشانی؟ یا پھر خالی پن؟ پھر اچانک، اس نے ایک گہری، کھردری آواز میں کچھ بڑبڑانا شروع کیا، لیکن الفاظ واضح نہیں تھے۔ زارا نے صرف "بچہ۔۔۔ غلطی۔۔۔ ختم۔۔۔" جیسے ٹکڑے سُنے۔
پھر اس نے تیزی سے مڑ کر دروازے سے باہر نکلنا شروع کیا۔ زارا کو لگا کہ اس کی سانسیں دوبارہ چلنے لگیں۔ مگر وہ آدمی دروازے پر ہی رک گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر ایک نظر کمرے میں ڈالی۔۔۔ سیدھا اس کونے کی طرف جہاں زارا چھپی ہوئی تھی۔ اس کی نظر زارا کی نظر سے ملی۔ ایک لمحے کے لیے وقت رک گیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت، پھر غصہ، اور پھر ایک عجیب سی تسلیم کی کیفیت آئی۔ اس نے چاقو اٹھایا۔ زارا نے چیخنے کو منہ کھولا، مگر آواز گلا ہی رہ گئی۔
لیکن اس نے حملہ نہیں کیا۔ اس نے صرف ایک بار سر ہلایا، جیسے کسی بات پر افسوس کر رہا ہو، اور پھر تیزی سے گلی میں غائب ہو گیا۔ زارا وہیں دیوار سے لگ کر زمین پر بیٹھ گئی، کانپتی ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں سارہ کا پِیرس اب بھی دبایا ہوا تھا، جس کی نوک اس کی ہتھیلی میں گڑ گئی تھی۔ وہ آدمی جانتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سارہ کہاں ہے۔ یا پھر۔۔۔ کیا ہوا تھا۔ اس کے الفاظ۔۔۔ "غلطی۔۔۔ ختم۔۔۔"
زارا کو پولیس اسٹیشن جانا پڑا۔ اس بار وہ خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔ اس نے انسپکٹر کو سب کچھ بتایا – سارہ کی اسکیچ بک، زخم والے آدمی کا اسکیچ، متروک فیکٹری، پائیرس، اور خود اس آدمی کا سامنا۔ اس نے اس کے الفاظ بھی دہرائے۔ انسپکٹر، جو پہلے بے دل تھا، اب توجہ سے سننے لگا۔ اس نے سارہ کے اسکیچ کی کاپی بنوائی، پائیرس کو ثبوت کے طور پر رکھا، اور ایک ٹیم کو فیکٹری کے آس پاس تلاش اور پوچھ گچھ کے لیے بھیجا۔
رات گئے، زارا کے گھر فون کی گھنٹی بجی۔ یہ انسپکٹر تھا۔ اس کی آواز میں پہلی بار کچھ جذبات تھے۔ "ہمیں کچھ مل گیا ہے، زارا صاحبہ۔ فیکٹری کے قریب ایک چھوٹی سی دکان کا مالک کہتا ہے کہ اس نے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ایک لڑکی کو دیکھا تھا جو آپ کی بہن سے ملتی جلتی تھی۔ وہ اسی زخم والے آدمی کے ساتھ جھگڑ رہی تھی۔ اس نے صرف اتنا سنا کہ لڑکی کہہ رہی تھی: 'تم نے اسے کیا کیا؟ میں سب جانتا ہوں!' پھر وہ آدمی اسے گاڑی میں دھکیل کر لے گیا۔"
"گاڑی؟ کس رنگ کی؟ کیا نمبر؟" زارا کا گلا خشک ہو گیا۔
"دکاندار کو یاد نہیں، پرانی، کالی گاڑی تھی۔ نمبر کا کچھ پتا نہیں۔ ہم اس آدمی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کے چہرے کا نشان خاصا واضح ہے۔ وہ علاقے میں 'کالا' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اصل نام کوئی نہیں جانتا۔ اس کا تعلق چھوٹے موٹے جرائم سے رہا ہے، مگر پہلے کبھی اغوا یا۔۔۔" انسپکٹر رک گیا۔
"یا قتل کا الزام نہیں لگا۔" زارا نے خالی آواز میں کہا۔
"ہاں۔۔۔" انسپکٹر نے تصدیق کی۔ "ہم اسے تلاش کر لیں گے، انشاءاللہ۔"
لیکن دن گزرتے گئے۔ 'کالا' غائب تھا۔ اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ زارا کا گھر پولیس کی آمد و رفت اور بے نتیجہ معلومات کا مرکز بن گیا۔ امید اور مایوسی کا ایک خوفناک چکر۔ ماں اب اور بھی کمزور ہو گئی تھیں، اکثر بے ہوشی کی حالت میں رہتیں۔ والد کا چہرہ پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا۔
پھر ایک صبح، انسپکٹر خود زارا کے گھر آیا۔ اس کے چہرے کا تاثر زارا کے لیے کافی تھا۔ اس کی ٹانگیں لڑکھڑا گئیں۔
"ہمیں ایک گاڑی ملی ہے۔۔۔" انسپکٹر نے آہستہ سے کہا۔ "شہر سے باہر، ایک نہر کے کنارے۔ کالی، پرانی۔ اس میں خون کے دھبے ہیں۔۔۔ اور یہ۔۔۔" اس نے ایک پلاسٹک بیگ نکالا جس میں سارہ کا موبائل فون تھا، ٹوٹا ہوا، خون سے لت پت۔
زارا کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے دیوار تھام لی۔ چیخ اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی، ایک خاموش، اندرونی چیخ جو اس کے پورے وجود کو چیر رہی تھی۔ "نہیں۔۔۔ صرف یہی نہیں ہو سکتا۔۔۔" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
"ہم ابھی بھی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں، زارا صاحبہ۔" انسپکٹر کی آواز میں سچی ہمدردی تھی۔ "اور 'کالا' کو ہم ضرور پکڑیں گے۔"
مگر زارا کو یقین نہیں تھا۔ خون کے دھبے۔۔۔ ٹوٹا ہوا فون۔۔۔ یہ سب کچھ ایک ہی خوفناک حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اس کی بہن۔۔۔ اس کی چمکتی، ہنستی بہن۔۔۔ شاید اس دنیا میں نہیں رہی۔ اس درد کا کوئی نام نہیں تھا۔ یہ اس کے اندر ایک ایسی خاموشی چھا گئی جس کے نیچے چیختی ہوئی ہوائیں چل رہی تھیں۔
کئی ہفتے اور گزر گئے۔ 'کالا' پکڑا نہیں گیا۔ سارہ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ زارا کا خاندان ایک زندہ قبر میں بدل چکا تھا۔ زارا خود ایک چلتی پھرتی لاش کی مانند تھی۔ اس کی آنکھوں میں روشنی ختم ہو چکی تھی۔ وہ سارہ کے کمرے میں بیٹھی، اس کی چیزوں کو چھوتی، ان میں سارہ کی خوشبو تلاش کرتی۔ اسکیچ بک اس کا ساتھی بن گئی تھی۔ وہ زخم والے آدمی کے اسکیچ کو دیکھتی، اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی کہ اس نے کیا دیکھا؟ کیا محسوس کیا تھا؟ اس نے سارہ کو کیا کیا؟
ایک شام، جب زارا کالج سے واپس آ رہی تھی، اس نے بس اسٹاپ پر انتظار کیا۔ ہجوم میں کھڑی وہ اپنے خیالات میں گم تھی کہ اچانک اسے ایک چہرے پر نظر پڑی۔ وہی گہری آنکھیں! وہی ابھری ہوئی گال کی ہڈیاں! وہی زخم کا نشان! وہ آدمی بس اسٹاپ کے بالکل سامنے ایک چائے کی دکان پر کھڑا تھا، سر جھکائے، ایک گندگی سے بھری پلیٹ میں کچھ کھا رہا تھا۔
زارا کا خون جم گیا۔ خوف، غصہ، اور ایک وحشیانہ خواہش اس پر چھا گئی۔ اس نے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا، سارہ کی اسکیچ بک کو چھوا۔ اس کے اندر کی چیخ ایک دہاڑ بن گئی۔ اس نے قدم بڑھایا۔۔۔ پولیس کو فون کرنا چاہیے۔ مگر فون نکالنے میں وقت لگے گا۔ وہ بھاگ سکتا ہے۔
وہ آدمی اٹھا، کچھ پیسے دیے، اور گلی میں چل پڑا۔ زارا بے ساختہ اس کے پیچھے ہو لی۔ اس کا دل سینے کو توڑنے کو تھا۔ اس نے اپنی سانسوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی۔ وہ آدمی گلیوں میں مڑتا رہا، بظاہر بے فکر۔ آخرکار وہ ایک پرانی، گرتی ہوئی عمارت کے سامنے رکا اور اندر چلا گیا۔ زارا نے دروازے کے قریب کھڑے ہو کر دیکھا۔ اندر تاریک سیڑھیاں تھیں۔
اسے کیا کرنا چاہیے؟ اندر جانا خودکشی کے مترادف تھا۔ مگر موقع ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ اس نے اپنا فون نکالا، انسپکٹر کو فون لگایا، آواز کانپتے ہوئے جگہ بتائی۔ "جلدی آئیں۔۔۔ وہ یہاں ہے۔۔۔" پھر اس نے فون بند کیا۔
وہ کچھ دیر دروازے کے باہر کھڑی رہی، اندر جانے اور نہ جانے کے درمیان کشمکش میں۔ پھر اس کے ذہن میں سارہ کا چہرہ آیا، اس کی ادھوری مسکراہٹ، اس کی ناتمام آرٹ سیریز۔۔۔ اور اس کے اندر کی چیخ نے اسے آگے دھکیل دیا۔ وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ منزل پر ایک دروازہ تھا، جس کے پیچھے سے ہلکی سی روشنی آ رہی تھی اور آوازیں آرہی تھیں۔۔۔ کھانسے کی آواز؟ رونے کی؟
زارا نے دروازے کا ہینڈل دبایا۔ وہ کھلا ہوا تھا۔ اندر ایک چھوٹا سا، گندہ کمرہ تھا۔ کونے میں ایک پلنگ تھا، جس پر کوئی پڑا تھا۔۔۔ اور اس کے پاس زخم والا آدمی، 'کالا'، گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا۔ اس نے دروازے کی آواز پر مڑ کر دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں پہلے غصہ آیا، پھر وہی پہچان اور پھر ایک عجیب سی بے بسی۔
"تم۔۔۔" زارا کی آواز گونجی۔
"ہاں، میں۔" اس نے آواز نکالی، جو پہلے سے بھی زیادہ کھردری تھی۔ "آ گئی تم بھی۔"
زارا کی نظر پلنگ پر پڑی شخصیت پر گئی۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی، بہت بیمار، بہت کمزور۔ اس کی سانسیں خرخراہٹ کے ساتھ چل رہی تھیں۔ اس کے پاس ایک پانی کا گلاس اور کچھ گولیاں پڑی تھیں۔
"یہ۔۔۔ یہ کون ہے؟" زارا نے پوچھا، حیرت سے۔
"میری ماں۔" 'کالا' نے جواب دیا، اس کی آواز میں ایک عجیب سا نرم پن۔ "وہ۔۔۔ وہ مر رہی ہے۔"
زارا کچھ سمجھ نہ پائی۔ "تمہاری ماں؟ مگر۔۔۔ سارہ؟ میری بہن؟ تم نے اسے کیا کیا؟"
'کالا' نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ نم تھیں۔ "تمہاری بہن۔۔۔ وہ اچھی لڑکی تھی۔ بہادر۔"
"کہاں ہے وہ؟" زارا کی آواز چیخ بن گئی۔ "بتاؤ! کیا تم نے۔۔۔ کیا تم نے اسے مار ڈالا؟"
'کالا' نے پلنگ پر پڑی اپنی ماں کی طرف دیکھا، جو بے ہوش لگ رہی تھی۔ پھر اس نے زارا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک اتھاہ دکھ تھا۔ "نہیں۔۔۔ میں نے اسے نہیں مارا۔ مگر۔۔۔ مگر میں اس کی موت کا سبب ضرور بنا ہوں۔"
زارا کا دماغ چکرا گیا۔ "کیا مطلب؟ سمجھاؤ مجھے!"
وہ آدمی کھڑا ہوا۔ اس کا قد لمبا اور دبلا تھا۔ "اس دن۔۔۔ جب تم نے مجھے اس بوڑھے کو دھکے دیتے دیکھا۔۔۔ وہ میرا باپ تھا۔" اس نے آہستہ سے کہا۔ "وہ۔۔۔ وہ ہمیشہ ظلم کرتا رہا۔ ماں پر۔۔۔ مجھ پر۔۔۔ جب تک میں بڑا نہیں ہو گیا۔ اس دن میں نے اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ تمہاری بہن نے دخل دیا۔۔۔ اس نے سب خراب کر دیا۔"
زارا نے سانس روک لی۔ "پھر کیا ہوا؟"
"میں غصے میں تھا۔ میں نے اسے دھمکی دی۔ کہا کہ اگر کسی کو بتایا تو۔۔۔" اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ "مگر وہ ڈری نہیں۔ وہ کئی دن بعد میرے پیچھے آ گئی۔ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ وہ میری ماں کے بارے میں جان گئی ہے۔ وہ یہاں آ گئی، جیسے تم آئی ہو۔ اس نے کہا کہ وہ پولیس کو بتائے گی۔ میں نے۔۔۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لڑائی ہوئی۔ میں نے اسے دھکا دیا۔۔۔ وہ سیڑھیوں سے گر گئی۔۔۔" اس کی آواز لڑखڑا گئی۔
زارا کی آنکھیں پھیل گئیں۔ "سیڑھیوں سے؟"
"ہاں۔۔۔ اس کا سر پتھر سے ٹکرایا۔ وہ۔۔۔ وہ بے ہوش ہو گئی۔ بہت خون بہہ رہا تھا۔" 'کالا' کا چہرہ مڑ گیا۔ "میں ڈر گیا۔ میں نے اسے اٹھایا، گاڑی میں ڈالا۔۔۔ میں اسے ہسپتال لے جانا چاہتا تھا۔ مگر راستے میں۔۔۔ نہر کے پاس۔۔۔ گاڑی کا پہیہ پنکچر ہو گیا۔ میں نے گاڑی روکی۔ میں نے اسے دیکھا۔۔۔ وہ سانس لے رہی تھی، مگر بہت کمزور۔ میں نے سوچا۔۔۔ اگر میں اسے ہسپتال لے گیا، تو پولیس مجھے پکڑ لے گی۔۔۔ اور میری ماں۔۔۔" اس نے اپنی ماں کی طرف اشارہ کیا۔ "وہ تنہا مر جاتی۔ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔"
زارا کا دل ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ "پھر۔۔۔ پھر تم نے کیا کیا؟"
"میں۔۔۔ میں بزدل تھا۔" اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ "میں نے اسے۔۔۔ اسے نہر کے کنارے، گھاس میں چھپا دیا۔ دور ایک جگہ۔۔۔ اور پھر بھاگ گیا۔ میں واپس گیا۔۔۔ کئی دن بعد۔۔۔ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ صرف یہ فون پڑا تھا۔۔۔ خون لگا ہوا۔ میں نہیں جانتا کہ کوئی اور اسے لے گیا یا۔۔۔" وہ خاموش ہو گیا، سر جھکائے۔
زارا کا ذہن تیزی سے چل رہا تھا۔ سارہ زندہ تھی جب وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا؟ کسی نے اسے اٹھا لیا ہوگا؟ ہسپتال؟ مگر پولیس تو تمام ہسپتالوں میں تلاش کر چکی تھی۔ "تم۔۔۔ تم یقین سے نہیں جانتے کہ وہ مر گئی؟" اس کی آواز میں امید کی ایک کونپل پھوٹ رہی تھی۔
'کالا' نے سر ہلایا، آنسو اس کے گندے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ "نہیں۔۔۔ مگر اتنا خون۔۔۔ اور وہ بے ہوش۔۔۔" پھر اس نے زارا کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک التجا تھی۔ "میں جانتی ہوں میں نے بہت برا کیا۔ مگر۔۔۔ میری ماں۔۔۔ وہ مرنے والی ہے۔ صرف چند گھنٹے۔۔۔ یا دن۔۔۔ مجھے یہاں رہنے دو۔ جب وہ۔۔۔ جب وہ چلی جائے گی، میں خود پولیس کے پاس چلا جاؤں گا۔ میں سب کچھ بتا دوں گا۔ تمہاری بہن کا پتہ لگانے میں مدد کروں گا۔۔۔ اگر وہ۔۔۔ اگر وہ کہیں ہوئی۔"
دریچے سے دور پولیس گاڑیوں کے سائرن کی آواز آئی۔ 'کالا' نے چھلانگ لگائی۔ اس کی آنکھوں میں خوف لوٹ آیا۔ "وہ آ گئے۔"
"میں نے انہیں بلایا تھا۔" زارا نے کہا۔
"براہ کرم۔۔۔" اس نے ہاتھ جوڑے، زخم والا گال کانپ رہا تھا۔ "صرف کچھ دیر۔۔۔ ماں کو تنہا مت چھوڑو۔ وہ۔۔۔ وہ خوفزدہ ہو گی۔"
پولیس گاڑیاں نیچے رکیں۔ سیڑھیوں پر پاؤں کی تیز آوازیں آئیں۔ 'کالا' نے ایک لمحے کے لیے اپنی ماں کی طرف دیکھا، پھر زارا کی طرف۔ اس کی آنکھوں میں جو کچھ تھا وہ زارا کبھی نہیں بھول پائی – ایک ہولناک، کرب ناک خاموشی جس کی چیخ صرف وہی سن سکتا تھا۔ پھر اس نے پلنگ کے نیچے ہاتھ ڈالا اور ایک چاقو نکال لیا – وہی چاقو جو زارا نے اسے فیکٹری والے کمرے میں گھماتے دیکھا تھا۔
"نہیں!" زارا نے چیخ مارنے کی کوشش کی۔
لیکن وہ آدمی چاقو اپنی طرف نہیں، بلکہ سیڑھیوں کی طرف بڑھتے پولیس والوں کی طرف کر رہا تھا۔ "میں زندہ گرفتاری نہیں دوں گا!" اس نے دھاڑا۔ "ماں کو مت چھیڑنا!"
دروازہ زور سے کھلا۔ دو پولیس والے اندر داخل ہوئے، پستول تانے ہوئے۔ "ہاتھ اوپر! زمین پر گِر جاؤ!"
'کالا' نے ایک جنگلی چیخ لگائی اور چاقو لہراتے ہوئے ان کی طرف بڑھا۔
گولیاں چلیں۔ ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔
'کالا' کا جسم جھٹکے کھا کر پیچھے کو گرا۔ وہ بری طرح زخمی تھا، سینے اور پیٹ سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ ہچکیاں لیتا ہوا پلنگ کی طرف منہ کر کے گرا۔ اس کا ایک ہاتھ اپنی ماں کے کمبل تک پہنچ گیا۔ "ما۔۔۔" اس کا منہ خون سے بھر گیا۔ وہ تڑپا، اور پھر ساکت ہو گیا۔
پولیس والے آگے بڑھے، احتیاط سے۔ زارا دیوار سے لگی، ٹھٹھر گئی۔ اس کی آنکھیں 'کالا' کے مردہ جسم پر نہیں، بلکہ پلنگ پر پڑی اس بوڑھی عورت پر تھیں۔ کیا وہ بے ہوش تھی؟ یا پھر اس نے سب کچھ دیکھا لیا تھا؟ اس کی آنکھیں نیم کھلی تھیں، بے جان سی۔ پھر، بہت آہستہ سے، اس کا ایک ہاتھ، جو کب سے بے حرکت پڑا تھا، ہلکا سا حرکت کرتا ہوا اپنے بیٹے کے خون سے لت پت ہاتھ کی طرف بڑھا۔ اس کی انگلیاں اس کے بیٹے کی انگلیوں کے پاس آ کر رک گئیں، چھوئے بغیر۔ ایک آنسو اس کی آنکھ کے کونے سے نکل کر گندے تکیے پر گر گیا۔ پھر اس کا ہاتھ ڈھیلا پڑ گیا، اور اس کی سانسیں۔۔۔ رک گئیں۔
انسپکٹر اندر آیا، زارا کے پاس آیا۔ "کیا آپ ٹھیک ہیں؟"
زارا نے سر ہلایا، بول نہیں پا رہی تھی۔ اس کی نظر پھر سے اس بوڑھی عورت اور اس کے بیٹے کے جسموں پر گئی جو موت میں بھی ایک دوسرے کے قریب تھے۔ نفرت؟ انتقام؟ یہ سب کچھ کس کے لیے تھا؟ ایک ظالم باپ؟ ایک بزدل بیٹا؟ ایک بہادر بہن؟ اور ایک ماں جو بے بسی سے مر گئی؟ زندگی کا درد، خوف اور نقصان کا یہ سلسلہ۔۔۔ کب ختم ہوگا؟
انسپکٹر نے 'کالا' کی لاش کا معائنہ کیا۔ اس کی جیب سے کچھ کاغذات نکالے۔ پھر اس نے زارا کی طرف دیکھا، چہرے پر حیرت کے ساتھ ایک عجیب سی جھلک۔ "زارا صاحبہ۔۔۔ ہمیں اس کی جیب سے یہ ملا۔"
اس نے زارا کو ایک چھوٹی سی، مڑی ہوئی تصویر دی۔ زارا نے اسے سیدھا کیا۔ یہ ایک اخبار کی کٹنگ تھی، پرانی۔ ہیڈ لائن تھی: "نوجوان خاتون کو نہر کنارے سے بے ہوش پاکر ہسپتال منتقل"۔ نیچے ایک تصویر تھی – بے ہوش، سر پر پٹی بندھی ہوئی، مگر چہرہ واضح تھا۔ سارہ کا چہرہ!
زارا کے ہاتھ سے تصویر گر گئی۔ "وہ۔۔۔ وہ زندہ تھی؟" اس کی آواز سرسراہٹ بن گئی۔
"یہ اخبار ایک ہفتہ پرانا ہے۔" انسپکٹر نے کہا، اس نے کٹنگ اٹھائی۔ "مضمون کے مطابق ایک نامعلوم نوجوان خاتون کو شہر سے باہر نہر کنارے سے بے ہوش حالت میں پایا گیا۔ شدید سر پر چوٹ۔ اسے سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس وقت بھی وہ شناخت سے ماورا تھی۔"
زارا نے چیخنا چاہا، رونے لگنا چاہا، ہنسنا چاہا۔ "کون سا ہسپتال؟"
"یہ لکھا ہے۔۔۔ سول ہسپتال کا پرائیویٹ وارڈ۔ مگر نام ظاہر نہیں کیا گیا۔" انسپکٹر نے کہا۔ "چلو، جلدی چلو! شاید ابھی بھی وقت ہے!"
زارا، انسپکٹر اور پولیس کی گاڑی تیزی سے سول ہسپتال پہنچی۔ انسپکٹر نے اپنا شناختی کارڈ دکھایا اور معاملہ بتایا۔ انہیں پرائیویٹ وارڈ کی نرس انچارج کے پاس لے جایا گیا۔
"ہاں۔۔۔" نرس نے کہا، ایک فائل دیکھتے ہوئے۔ "ایک نامعلون نوجوان خاتون کو تقریباً ایک ہفتہ پہلے داخل کیا گیا تھا۔ شدید ہیڈ انجری۔ کوما میں ہے۔"
"کہاں ہے وہ؟" زارا کا دل منہ کو آ رہا تھا۔
نرس نے انہیں آئی سی یو وارڈ کے باہر لے جا کر ایک کمرے کا اشارہ کیا۔ شیشے کی دیوار کے پار، مشینوں کے درمیان، ایک پلنگ پر پڑی ہوئی لڑکی تھی۔ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی، چہرے پر چوٹ کے نشانات تھے، ناک میں ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ مگر چہرہ۔۔۔ وہ چہرہ زارا کو پہچاننے میں ایک سیکنڈ بھی نہ لگا۔ سارہ!
زارا نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی۔ اس نے سارہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ وہ ٹھنڈا تھا، مگر زندہ۔ اس کی سانسیں مشین کی مدد سے چل رہی تھیں، باقاعدہ۔ زارا نے اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر کہا: "سارہ۔۔۔ میں ہوں، زارا۔ میں آ گئی ہوں۔ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔" اس کی آواز روندی ہوئی تھی۔
سارہ کی پلکیں ہلکی سی جنبش کھائیں۔ پھر خاموشی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ کوما ہے، ردعمل غیر یقینی۔
زارا وہیں بیٹھ گئی، سارہ کا ہاتھ تھامے۔ اس کے اندر کا طوفان تھما نہیں تھا۔ خوشی تھی کہ سارہ زندہ ہے۔ غم تھا کہ وہ اس حالت میں ہے۔ غصہ تھا 'کالا' پر، اس کے مردہ باپ پر، اس ظالمانہ قسمت پر جو اس کی بہن کو اس بے بسی کی حالت میں ڈال چکی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر، ایک بے پناہ تھکن۔
رات گزرتی گئی۔ زارا جگتی رہی، سارہ کے چہرے کو دیکھتی رہی، اس کی سانسوں کی آواز سنتی رہی۔ صبح کی پہلی کرن کھڑکی سے اندر آئی تو سارہ کی انگلی زارا کے ہاتھ میں ہلکی سی حرکت کرتی محسوس ہوئی۔
زارا کی سانسیں رک گئیں۔ "سارہ؟"
پلک جھپکنے کی کوشش۔ پھر بہت آہستہ سے، سارہ کی آنکھیں کھلیں۔ دھندلی، کنفیوزڈ۔ وہ زارا کے چہرے پر ٹک گئیں۔ پہچان کی ایک ہلکی سی چمک۔
پھر، سارہ کے ہونٹ ہلکے سے حرکت کرے۔ آواز نہیں نکلی، صرف ہونٹوں کی جنبش۔ مگر زارا نے پڑھ لیا۔
"ز۔۔۔ زارا۔۔۔"
اور پھر، ایک آنسو سارہ کی آنکھ سے نکل کر اس کے زخمی گال پر بہہ نکلا۔ یہ آنسو، اس لمحے میں، سارہ کی پوری کہانی بیان کر رہا تھا۔ خوف، درد، تنہائی، اور اب۔۔۔ ایک ہلکی سی امید۔ یہ خاموش لمحہ، زارا کے اندر چیختی ہوئی تمام خاموشیوں کا جواب تھا۔ زندگی کا درد ختم نہیں ہوا تھا، مگر اب، اس کے ساتھ سہارا تھا۔ وہ سارہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے رہی، آنسوؤں کو بہنے دیتی ہوئی، کیونکہ اب وہ خاموشی کے خوفناک سوراخ میں اکیلے نہیں تھی۔ سفر ابھی طویل تھا، مگر راستہ روشن تھا۔
Post a Comment